کہیں دور کی نہیں ، کسی دریا پار کی نہیں میرے شہر ، میری ذات کے سامنے کا منظر ہے ۔ اسے کہانی لکھوں ، حقیقت لکھوں یا پھر وحشت ۔
اک استاد جو اک نہیں کئی نسلوں کی بنیاد بناتا ہے ۔ یہ تاریخ نہیں ، یہ آج ہے اور آج بھی کچھ سکول ایسے ہیں جو چٹای اور تختہ سیاہ پر چل رہے ہیں ۔ جس معاشرے میں اک استاد بےایمان ہو وہاں عالم نہیں پیدا ہوتے ہم لاکھ رو لیں گرگرا لیں اسے کے سامنے زوال ہمارا مقدر ہے ۔ یہ کسی نامی گرمی ادارے کا اسکول نہیں ہے ۔ یہ ان بچوں کا سکول ہے جو یا تو یتیم ہیں یا ان کے والدین اسطاعت نہیں رکھتے کہ انھیں تعلیم دلا سکیں ۔ سکول کی ماہانہ فیس صرف سو روپیے ہے کتابیں ، کاپیاں ، یونیفارم اور شوز یہ سب فلاحی تنظیم کی طرف سے ہیں ۔ استاد بھی قابل ہیں انھیں تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں مگر اختیارات کہیں بھی کسی کو بھی دیے جائیں وہ ان کا ہر طرح سے استعمال کر سکتا ہے ۔
یہاں فنڈ آتا ہے ان حقداروں کی تعلیم کے لیے اور بچے کتابوں ، کاپیوں اور دوسری سہولیات کے لیے نظر جمائے بیٹھے ہیں ۔ ہر چہرہ معصوم امیدوں اور خواہشات لے کر یہاں آتا ہے ۔ لیکن پرنسپل کے پاس فنڈ ہیں وہ جاہل نہیں اسے ڈگری دی گی ہے وہ بھی ماسٹرز کی اس ڈگری میں حق مارنے کی تربیت بھی شامل تھی شاید ۔ بچوں کے فنڈ غائب کرنا ، گھر سے ان کے مجبور والدین سے امتحانی فنڈ ، یہاں تک کہ سکول میں پودے لگانے کے فنڈ لیا جا رہا ہے ۔ یہ اختیارات ہونے کا فائدے ہے ۔ تعلیمی فرائض کچھ اس طرح انجام دیے جاتے ہیں کہ کچھ بچوں کو ٹیوشن کے نام پر حل شدہ پیپر دیے جاتے ہیں اور باپنا ریزلٹ اچھا بنانے کے لیے باقی بچوں کو پیپر میں امدادی سامان مہیہ کیا جاتا ہے ۔
ظلم اور زیادتیاں واپس آتی ہیں اس عمل کو مکافات کہا جاتا ہے ۔ اب ان استاد کا یہ حال ہے کہ ان کا سولہ سال کا اپنا بیٹا انھیں جوتے سے مارتا پایا گیا اور استاد صاحب گلی میں بھاگتے دیکھائی دیے ۔ دو بیٹیاں ہیں چھوٹی لیکن وہ بھی ذہنی مریض ہیں ۔ وہ دیکھ رہا ہے اور بے شک اس کی لاٹھی بے آواز ہے ۔
ضمیر ملامت کے جرم میں اندھیری نگری میں قید ہے اور باہر رقص جاری ہے ۔
تحریر: منیب الرٰحمن خالد
ضمیر ملامت کے جرم میں قید
Reviewed by Muneeb ur Rehman khalid
on
September 06, 2019
Rating:

Sad that people misuse their authorities 💔
ReplyDelete