banner image
banner image

کوئی کچھ یاد نہیں رکھتا

کوئی کچھ یاد نہیں رکھتا
اور کسی کو سب یاد رہتا ہے

خزاں کا موسم تھا کہ جب پتے زرد رنگ کا لباس اوڑھے درخت کی ٹہنیوں سے لٹک رہے تھے اپنی باری کہ منتظر تھے کہ کب یہ شجر کے سنگ بندھی ڈور ٹوٹے اور زمیں پر ہوا میں لہراتے ہوئے گریں گے اور پھر کسی قدم کا انتظار ہوگا کہ کچلے جائیں گے۔
میز پر بیٹھی ایک قابلِ قبول صورت لڑکی کسی کی منتظر تھی، آنکھوں میں ستارے کی سی چمک تھی یا شاید اضطراب آنکھوں سے چھلکتا معلوم ہوتا تھا۔ قریباً اک گھنٹے کے بعد کسی کی آمد، نظریں اس کے قدموں پر ایسی جمی کہ اٹھائی نہ گئیں۔ وہ شخص اس کے سامنے تھا جس کی خاطر وہ ناممکنات کو بھی ممکن بنا کر دم لے۔
"السلام علیکم" اس نے اس لڑکی کو مخاطب کر کے کہا
کچھ لمحات کی خاموشی کے بعد لبوں پر مسکان لا کر اس نے کہا "وعلیکم السلام! کیسے ہیں آپ؟"
وہ بیٹھا اور کہا " اللہ کا شکر ہے!" توقف کے بعد "آپ کیسی ہیں"
"الحمداللہ میں ٹھیک"
"آپ جانتی ہیں کہ میں نے آپ سے اک بے حد ضروری بات کرنی ہے، اسی لیے آپ کو تکلیف دی"
" جی کہیں میں سن رہی ہوں اس میں تکلیف کی کوئی بات نہیں"
"جو بات میں کہنے جا رہا یقیناً آپ کو اچھی نہیں لگے گی مگر میں چاہتا ہوں جب تک میری بات ختم نہیں ہوتی، آپ اپنی نشست سے اٹھیں گی نہیں اور نہ ہی نظریں چرائیں گی"
حالات خاصے سنجیدہ ہوتے جا رہے تھے اور اک لحظے کیلئے لگا کہ کچھ برا بہت برا ہونے جا رہا ہے پر اس نے اس خیال کو جھٹک کر ہاں میں ہاں ملا دی
اور کہہ دیا "جی صحیح ہے آپ شروع کیجیے بات"

"دیکھیں میں آپ کے جذبات سے واقف ہوں، آپ میرے بارے میں جو محسوس کرتی ہیں ہیں جانتا ہوں سمجھتا ہوں اچھی طرح سے۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے چہرے کے بدلتے تاثر اور جیسے ہی اس کی نظروں کا مرکز بدلا وہ خاموش ہو گیا اور وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگ گئی
"جی۔۔۔"
"آپ کو نظریں مجھ پر مرکوز رکھ کر میری بات سننی اور سمجھنی ہے"
وہ گویا اپنے لہجے کی سختی اور سرد مہری سے کچھ باور کروانا چاہ رہا تھا۔
"جی ٹھیک ہے" خالی الذہن اس نے کہہ دیا اور من ہی من میں خوف بڑھتا گیا اور دل گلے میں دھڑکتا محسوس ہونے لگا۔
"میری شادی طے ہو گئی ہے" وہ رُکا
وہ منجمد نظریں اس پر جمائے بیٹھی رہی، کچھ نہ بولی
"آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں، مجھے فکر تھی کہ یہ جان کر آپ خود کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اور چونکہ آپ جانتی ہیں پہلے سے ہی کہ مجھے کبھی آپ سے محبت تھی ہی نہیں اور نہ ہو سکتی ہے"
وہ یک لحظے کیلئے کوئی بھی تاثر نہ دیکھ کر پریشاں ہوا اور خاموش ہوا۔
وہ کچھ نہ بولی، اسی شخص کہ جس سے بے پناہ محبت تھی پہ نظریں جمائے بیٹھی رہی، اس کے لفظ اسے چبھ رہے تھے مگر کچھ بھی ظاہری طور پر واضح نہیں ہو رہا تھا۔
اس نے ذرا ادھر اُدھر دیکھ کر لہجے میں نرمی لاتے ہوئے کہا " کیا سوچ رہی ہیں؟"
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ انھیں بہنے سے روک رہی تھی، لرزتی آواز میں کہا
"تو مجھ سے کیا چاہتے ہیں آپ؟ بات مکمل کیجیے"
"وعدہ!"
"وعدہ؟ کیسا وعدہ؟"
"مجھ سے کیا وعدہ آپ توڑیں گی نہیں جانتا ہوں اس لیے آپ سے وعدہ چاہتا ہوں کہ کبھی خود کو نقصان نہیں پہنچائیں گی اور اپنی باقی زندگی ہنسی خوشی گزاریں گی"
اس کی زندگی کا گلا گھونٹ کر خوش رہنے کا وعدہ مانگا گیا تھا۔
"آپ مجھ سے میری بساط سے زیادہ مانگ رہے ہیں اور میرا ضبط شاید مجھے اس کی اجازت نہ دے"

"خدارا مجھ سے وعدہ کریں تاکہ میں اس فکر سے آزاد ہو جاؤں"
"میری محبت نے آپ کو قید ہی کب کیا؟ آپ اول دن سے آزاد رہے!" اپنی آواز کی لرزش کو ظاہر نہ کرتے ہوئے اس نے کہا

وہ بس اس کی طرف تکتا رہا کچھ کہہ نہ سکا کیونکہ اس کے سوال کا جواب وہ اتنی سی فرصت میں نہیں تراش سکتا تھا۔
اس نے پھر بولنا شروع کر دیا۔۔۔
"اور آپ کی فکر مندی مجھے شُبے میں ڈال دیتی ہے پھر اگر محبت نہیں تو یہ سب غیر اہم ہے"
وہ اقرار یا انکار کرتے ہوئے ہچکچایا اور خاموش رہا۔۔

"خیر اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو وعدہ کرتی ہوں کہ خود کو نقصان نہیں پہنچاؤں گی مگر دوسری بات کیلئے دعوے سے نہیں کہہ سکتی میں۔ مطمئن رہیں آپ"
اس کے چہرے پہ تبسم ابھرا جو بالکل بھی دل سے نہیں تھا بس اس کی سرد مہری کو ظاہر کرتا تھا۔
"شکریہ"

"خدا آپ کو ڈھیروں خوشیاں عطا فرمائے اور ہمیشہ کامیاب رہیں آپ اور یہ نیا رشتہ آپ کیلئے بےحد مبارک ہو ۔۔۔آمین"
اس کے سامنے اس نے ایک آنسو کو ضبط کا بند توڑنے نہ دیا
اس نے "جزاک اللہ" کہا اور کہا کہ
"اب گھر کو لوٹ جانا چاہیے"
" جی اگر آپ نے جانا ہے تو جائیں"
"مگر آپ۔۔۔۔"
اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول اٹھی
"میں بھی چلی جاؤں گی، وعدہ کر چکی ہوں فکر مند ہو کر جائیں"
اس کا من بھاری ہوا اک لمحے بھر کیلئے اور وہ "اللہ حافظ، اپنا خیال رکھئے گا" کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
اس کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو اچانک اک جھٹکا محسوس ہوا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے قطار بہ قطار اور اس کے الفاظ اس کے سر پر کسی ہتھوڑی کی مانند اثر کر رہے تھے، وہ اپنے حواس سے محروم ہو گئی تھی خیر وعدے کی پابند تھی تو جب تک سانسیں چل رہی تھی تب تلک زندہ رہنا تھا اس کو۔
گھنٹوں بعد گھر کو گئی، سب پریشاں ہوئے، کسی سے کچھ نہیں کہا، چہرہ دھویا اور اپنی والدہ کی گود میں سر رکھ کر روتے ہوئے کہنے لگی
" امی میں آپ سے کہہ کر گئی تھی کہ شاید کوئی اچھی خبر لے کر آؤں گی مگر میں ایک وعدے کی زنجیر میں باندھ آئی ہوں خود کو، مجھے جس شخص سے محبت ہے اس نے ٹھکرا دیا ہے مجھے"
والدہ کی آنکھیں نم ہوئی، اپنی بیٹی کو پہلی دفعہ اس طرح روتا دیکھ رہی تھی، یہ وہ بیٹی ہے میری جو پرندوں کی چہچہاتی رہتی تھی اور اب میری گود میں سر رکھ کر بلک بلک کر رو رہی ہے۔
یہ محبت بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔

جانے پر وہ بھی خوش نہیں تھا، اسے یوں بےبس چھوڑ کر، دل ہی دل میں وہ بھی اسے چاہتا تھا مگر تسلیم کرنا نہیں چاہتا تھا، بے چینی میں گزرے اس کے تمام دن، تمام لمحات۔ شادی ہو گئی سب کچھ اچھا تھا مگر رفتہ رفتہ سکون غائب ہوگیا اور معلوم نہیں کیوں مگر وہ یہ نہ چاہتے ہوئے بھی محسوس کرتا تھا کہ اسے بھی محبت ہو چکی تھی مگر تسلیم کرتے ہوئے بے حد خوف محسوس ہوتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس تھا کہ اس نے واقعی بساط سے زیادہ مانگا تھا اس سے اس روز۔۔۔

وہ ہر سال اسی دن، اسی وقت اسی مقام پر جاتی تھی، کسی کے آنے کا انتظار کرتی تھی اور اس کی کہی باتیں اس کے دل پر لکھی جا چکی تھی حرف حرف یاد تھا، لفظ لفظ کانوں میں گونجتا تھا۔ عین اس وقت رونا شروع کر دیتی جس وقت وہ رخصت ہوا تھا۔
خود کو وعدہ یاد کرواتی تھی ہر سال وہی رسم دہراتی تھی۔
وہ جس درخت کے سائے تلے بیٹھ کے روتی تھی وہاں پتھر پہ کچھ تراشا کرتی تھی ہر سال۔
اک سال گزرا "پ" تراشا
دوسرا سال گزرا "ت" تراشا
تیسرا سال گزرا "ھ" تراشا
چوتھا سال گزرا "ر" تراشا
وقت گزرتا چلا گیا۔۔۔
وہ تعلیم بھی مکمل کر چکی تھی، پتہ چلا کہ امتحان میں بھی اول آئی ہے۔ سب خوش تھے مگر وہ نہیں۔
پانچ سال گزرے پھر وہی رسم ادا کی جا کر
پتھر پہ "ک" تراش دیا
پھر اک اور سال گزرا تو "ا" تراشا
وقت کو تو جیسے پر لگ گئے تھے، خیر اس کا ہر سال کا معمول بن گیا تھا اور اک سال اور گزرا
تو پتھر پہ "ص" لکھ دیا
آٹھویں سال کے گزرنے پر وہاں "ن" لکھ دیا گیا

اتفاق ہوا کے نویں سال وہ اپنی بیوی کو اسی پارک میں لے کر آیا، وہی دن تھا، وہی
 @mr.muneeburrehman
وقت تھا ، مگر تمام کہانی سے وہ بے خبر تھا۔
وہاں کچھ لوگوں سے سنا ایسا کہ دل بیٹھ گیا اک بار کہ کوئی آتی ہے لڑکی یہاں اور گھنٹوں بیٹھ کر روتی ہے اور کچھ پتھر پہ تراش کر جاتی ہے۔ وہ چونکا کہ اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا، اس کے سامنے وہی آرہی تھی ٹھیک اسی مقام پر بیٹھی جہاں اس نے اسے الوداع کہا تھا۔ اس کی بیوی نے اس کے چہرے کے بدلتے تاثر دیکھے، ساری کہانی سے وہ واقف تھی، اس نے سچ بول کر ہی اپنی نئی زندگی کی ابتداء کی تھی۔ وہ پریشاں ہوئی۔

اس کی نظریں اسی لڑکی پہ جم گئی۔ وہ پہلے سے زیادہ لاغر لگ رہی تھی، آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے، زرد رنگت مگر پھر بھی دلکش معلوم ہو رہی تھی۔
اس نے دیکھا اپنی آنکھوں سے،تھوڑا قریب جا کر سنا اس کو۔
وہ سب الفاظ دہرا رہی تھی، خود کو وعدہ یاد کروا رہی تھی، روئی خوب روئی اور پھر زمیں پہ گر گئی اور اس نے جیسے ہی "م" تراشا
اس نے اک قہقہ لگایا مگر آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور پلٹ کر اس کی طرف دیکھ کر کہا
"میرا پتھر کا صنم آج آ ہی گیا میرے ضبط کا تماشہ دیکھنے"
شکوہ نہیں شکوے تھے اس کی آنکھوں میں
وہ اس کو دیکھ کر رو پڑا اور گھٹنوں کے بل گرا اور ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرنے لگا۔۔۔اس کی بیوی بھی کمزور پڑ گئی اور رونے کے سوا وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔
اس نے اپنی محبت کی طرف قدم بڑھائے، وہ اس کے پاس آئی اس کے بندھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور گر پڑی۔
اس کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں، آنکھوں میں جو شکایت تھی غائب ہو رہی تھی، آنسو خشک ہو رہے تھے، لبوں کی جنبش ظاہر نہیں تھی،
آنکھیں جھپکی اور لبوں نے حرکت کی
"میں جانتی۔۔۔تھی۔۔۔۔۔آپ آئیں گے۔۔۔۔آخری بار کہنا۔۔۔۔چاہوں گی۔۔۔۔مجھے میرے۔۔۔۔پتھر۔۔۔کے۔۔۔۔۔۔صنم۔۔۔۔سے بےانتہا۔۔۔۔محبت ہے"
وہ رویا، اک نظر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر کہا
"جھوٹ کہا تھا کہ آپ سے محبت نہیں، جھوٹ کہا تھا سب۔ مجھے آپ سے بس آپ سے اور بس آپ سے محبت ہے"
اس نے جب سنا تو آنکھوں سے آنسو بہے اور دل کو خوشی ہوئی اتنی کہ وہ آخری بار دل دھڑکا تھا، کہ وہ آخری آنسو تھے، وہ آخری مسکان تھی اور وہ دونوں اک ہی لمحے میں اس مطلبی دنیا کو چھوڑ گئے۔
اک ہی لمحے میں ان دونوں کی سانسوں کا تسلسل ٹوٹا تھا، اس اظہار پر داستان رقم 
ہوئی اور وہ دفن ہو گئے۔


تحریر: نوشین کنول



کوئی کچھ یاد نہیں رکھتا کوئی کچھ یاد نہیں رکھتا Reviewed by Muneeb ur Rehman khalid on September 05, 2019 Rating: 5

No comments:

Powered by Blogger.