banner image
banner image

Kya dukh hai samandar ko bata bhi nahi sakta





کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا 


آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا 


تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تری کیا 


ہر شخص مرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا 


پیاسے رہے جاتے ہیں زمانے کے سوالات 


کس کے لیے زندہ ہوں بتا بھی نہیں سکتا 


گھر ڈھونڈ رہے ہیں مرا راتوں کے پجاری 


میں ہوں کہ چراغوں کو بجھا بھی نہیں سکتا 


ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے 


ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا




وسیم بریلوی
Kya dukh hai samandar ko bata bhi nahi sakta Kya dukh hai samandar ko bata bhi nahi sakta Reviewed by Muneeb ur Rehman khalid on September 04, 2019 Rating: 5

2 comments:

Powered by Blogger.