![]() |
اتنا جی لیا ہے کہ اب زندوں میں شمار تک نہیں ہوتا |
اتنا جی لیا ہے کہ اب زندوں میں شمار تک نہیں ہوتا
دھیاں میں رکھئے کہ یہ سفر طلبِ فرار تک نہیں ہوتا
گوشہ گوشہ سنتا ہے محض لب سے تعریف آپ ہی کی
یہ جان کر بھی شبہ میں رہتے ہیں، قرار تک نہیں ہوتا
آپ تو کہتے ہیں یہ بھی ہو جائیگا، وہ بھی کر لیں گے
یقیں کیجیے کہ اب تو باتوں پر اعتبار تک نہیں ہوتا
آپ ستم کیجیے ، بے انتہا کیجیے شوق سے حضور
خامشی سے سہتا ہے سب یہ دل اشکبار تک نہیں ہوتا
آپ کہتے ہیں تو کر ہی لیں گے کوئی راستہ اختیار
اب اس سے بڑھ کر تو کوئی قول قرار تک نہیں ہوتا
نوشین کنول
اتنا جی لیا ہے کہ اب زندوں میں شمار تک نہیں ہوتا
Reviewed by Muneeb ur Rehman khalid
on
September 06, 2019
Rating:

No comments: